کئی فرقوں (وہابی، دیو بندی) سے ہوتا ہوا، الحمد ﷲ اب میں سنّی مسلمان ہوں، لیکن میرے ذہن میں کچھ الجھنیں ہیں۔ قرآن شریف کی ایک آیت کا مفہوم ہے: ’اﷲ تعالیٰ روزِ محشر تمام انبیأ (علیھم السلام)کو جمع کرے گا اور فرمائے گابتاو ٔتمھاری تبلیغ کے جواب میں لوگوں نے کیا کہا، سارے انبیأ(علیھم السلام) عرض کریں گے، تو بہتر جاننے والاہے‘۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’حضرت عائشہ اور حضرت ابنِ عباس علیھم الرضوان سے مروی ہے کہ جب حضور ﷺ کے وصال کا وقت آیا توآپ ﷺ نے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا پھر چہرہ باہر نکال کر فرمایاکہ یہودو نصاریٰ کا بُرا ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت کی جگہ بنا لیا۔ (بخاری ومسلم)۔ ایک اور حدیث ابو مَرتد الغنوی سے روایت ہے کہ’رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قبر پر مت بیٹھ اور اُس کی طرف منہ کر کے دعا نہ کر‘۔ اسی طرح مسلم میں ایک اور حدیث ہے کہ ’رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی جھلستے ہوئے انگارے پر بیٹھے ، اُ س کے کپڑے جل جائیں یہاں تک کہ اُس کی جلد بھی جلنے لگ جائے اُ س سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے‘۔ براہِ کرم مندرجہ بالا قرآن و حدیث کی وضاحت فرمائیں کہ کیا مزارات پر جانا جائز ہے اور کیا علمِ غیب کا عقیدہ رکھنا درست ہے؟؟

keyboard_arrow_up